شیرمیسور ٹیپوسلطان شہید کے کارنامے

از: ریحان ظفر صدیقی‏، مقام کٹہری پچھم محلہ ، بیگوسرائے (بہار)

 

مرہٹوں کی یورش اور ٹیپو کی کارروائیاں

حیدر علی نے مرہٹوں کے ساتھ ایک سابق معرکے کا قضیہ ختم کرنے کیلئے انہیں ۵۰ لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انگریزوں کے خلاف حیدر علی کی پہلی جنگ کے بعد مرہٹوں نے اس خیال سے کہ دو سال تک انگریزوں کے ساتھ نبرد آزما رہنے کی وجہ سے حیدر علی کی فوجی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی ہے، مذکورہ رقم فوری طور پر ادا کرنے اور بصورت دیگر اس جنگ کے تمام مقبوضات واپس کرنے کا مطالبہ کرنے کے لیے سری رنگا پٹنم کا رُخ کیا۔ مادھو راؤ کی قیادت میں ایک لاکھ سواروں اور پچاس ہزار بندوقچیوں کا لشکر جرّار طمطراق کے ساتھ روانہ ہوا۔ حیدر علی کو جب اس یورش کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنی فوج کو ایک نئی ترتیب کے ساتھ تقسیم کیا اور ٹیپوسلطان سمیت کئی کمانڈروں کی قیادت میں کئی دستے مختلف اطراف میں متعین کردئیے اور مرہٹہ فوج کی بے حد کثرت اور اپنی فوجی قلت کے پیش نظر دفاعی جنگ کرنے اور شب خوں مارنے کی حکمت عملی اختیار کی۔

ٹیپوسلطان نے نہایت ذہانت، پھرتی اور بیدار مغزی کے ساتھ مرہٹہ افواج پر ایسے عجیب نفسیاتی اور جنگی مہارت سے بھرپور وار کیے اور شب خوں مارنے کی حکمت عملی کو ایسے احسن طریقے سے عملی جامہ پہنایا کہ مختصر عرصے میں ہزاروں مرہٹے ڈھیر ہوگئے اور ایک ماہ کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی مرہٹہ افواج سری رنگا پٹنم میں داخل نہ ہوسکیں۔ اس اثناء میں مادھوراؤ کا جو کہ بوجہ علالت راستے ہی سے واپس ہوگیا تھا، پونا میں انتقال ہوا۔ اوراس کے جانشینوں میں اقتدار کا جھگڑا شروع ہوا۔ اس صورت حال سے حیدر علی کو فائدہ پہنچا اور انھوں نے آسان شرائط پر مرہٹہ سرداروں سے صلح کی اور ۱۷۷۰/ میں شروع ہونے والی اس مرہٹہ یورش کا خاتمہ ہوا۔ اور ۱۷۷۶/ میں جنگ کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل ہی ختم ہوگئی۔

انگریزوں کے ساتھ میسور کی دوسری جنگ

پہلی جنگ میں شکست کے بعد برطانوی سامراج کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی اور انگریزوں کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ حیدر علی کی موجودگی میں ان کا ہندوستان پر مکمل قبضے کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ چنانچہ انھوں نے حیدر علی کو اپنے راستے کا سب سے بڑا پتھر سمجھ کر ہٹانے کیلئے بھرپور تیاریاں شروع کردیں۔ انھوں نے حسبِ سابق نظامِ حیدر آباد نواب آرکاٹ اور مرہٹوں کو حلیف بنانے کیلئے رابطے شروع کئے۔ حیدر علی نے بھی اس متحدہ محاذ کو توڑنے اوراس میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کیں۔ اور مسلمان ہونے کے ناطے نظامِ حیدرآباد کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی لیکن نظام کی ناعاقبت اندیشی اور ہٹ دھرمی کے باعث انھیں ناکامی ہوئی۔ چنانچہ حیدر علی نے انگریزوں کو مزید موقع نہ دینے کی غرض سے ۲۸/مئی ۱۷۸۰/ کو ۹۰ ہزار فوج کے ہمراہ سری رنگا پٹنم سے خروج کیا۔ انگریز بھی چونکہ نظام اور مرہٹوں کی حمایت نہیں لے سکے تھے اور تنہا حیدر علی کے مقابلے میںآ نا نہیں چاہتے تھے اس لئے انھوں نے صلح کا پیغام بھیجا لیکن حیدر علی نے اسے مسترد کردیا۔ اپنی فوج کو حسب سابق تقسیم کیا اور ایک بڑے دستے کی کمان ٹیپوسلطان کو دی جس کی عمر اب ۲۹ سال ہوگئی تھی اور وہ جرأت و بہادری، ذہانت ومہارت میں اپنا سکہ جما چکا تھا۔ حیدری افواج مختلف علاقوں کو فتح کرتی ہوئی یولی لور کے مقام پر پہنچیں، جہاں ان کا مقابلہ کرنل بیلی کی زیرقیادت انگریز فوج سے ہوا۔ گھمسان کارن پڑا اور کرنل بیلی کی فوج کو شکست ہوئی۔ ان کے سیکڑوں سپاہی مارے گئے اور ۳۶ بڑے افسران قید کیے گئے اور سری رنگا پٹنم جیل بھیج دئیے گئے۔ ایک دوسرے جنرل منزو نے جب بیلی کی شکست کی خبر سنی تو ہتھیار ڈال کر بھاگ گیا۔ ویلور پر بھی قبضہ ہوا، نواب آرکاٹ محمد علی کی فوجوں سے مقابلے کے بعد آرکاٹ فتح ہوا اور اس کے بڑے فوجی افسروں میں سے سیدحامد راجہ بیربرادر میر جعفر صادق میسور افواج میں شامل ہوئے اور حیدرعلی نے انکے مناصب کا لحاظ رکھتے ہوئے اعلیٰ فوجی عہدوں پر فائز کیا۔ ۱۵/اگست ۱۷۸۱/ کو حیدر علی مدراس پر جو کہ انگریزی فوج کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ حملہ کیا اور انگریزوں کو زبردست جانی ومالی نقصان پہنچایا۔ اس دوران انگریز گورنرجنرل نے فوج کی کمان جنرل آئرکوٹ کے سپرد کی، لیکن وہ بھی زیادہ دیر نہ جم سکا۔ ٹیپوسلطان نے اس جنگ میں مثالی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور کئی اہم فوجی علاقے انگریزوں سے چھین کر سلطنتِ خداداد میں شامل کرلئے۔ بدقسمتی سے اسی دوران ساحلی شہر ملبیار کے نائر قبیلے کے لوگوں نے بغاوت کی جس کو فرو کرنے کے لیے حیدر علی نے ٹیپوسلطان کو ملبیار بھیجا۔ ٹیپونے مختصر مدت میں وہاں کی بغاوت ختم کردی، لیکن اسے احتیاطی تدبیر کے طور پر کچھ عرصہ مزید وہاں گذارنے کا حکم دیاگیا۔

حیدر علی کی رحلت

ابھی انگریزوں کے ساتھ معرکہ آرائی جاری تھی اور حیدر علی کی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا جارہا تھا کہ حیدر علی آرکاٹ کے محاذ پر بیمار پڑگئے۔ ان کے جسم میں سرطان کے دانے نکلے ہوئے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مرض کی شدت کو دیکھ کر سلطان کو فوراً واپسی کے لیے خط لکھا۔ٹیپوسلطان خط پڑھ کر پائین گھاٹ کے مقام تک پہنچ گیا تھا کہ یکم محرم ۱۱۹۶ھ مطابق ۱۷۸۲/ کو حیدر علی نے جان جانِ آفریں کے سپرد کی اور ٹیپوسلطان کیلئے ایک عظیم مشن کی تکمیل کا بوجھ چھوڑ کر داربقا کی طرف کوچ کرگئے۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون ․

ٹیپو کی جانشینی

حیدر علی نے انتقال کے وقت اپنے امراء سلطنت کو وصیت کی تھی کہ جس وفاداری کے ساتھ آپ لوگ میری خدمت انجام دے رہے تھے اسی طرح میرے بعد ٹیپوسلطان کی بھی اطاعت کریں۔ ٹیپو نے سری رنگاپٹنم واپس پہنچ کر ۲۰/محرم ۱۱۹۶ھ کو سلطنت خداداد کا اقتدار سنبھالا۔ تخت شاہی پر جلوہ افروز ہونے سے قبل اپنی ماں کی خدمت میں حاضری دی، اس کی دعائیں لی۔ دورکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے بارِ امانت سنبھالنے کی توفیق کا استدعاء کیا۔اور دربار میں آکر تخت شاہی پر مسندنشیں ہوئے۔ دربارشاہی کی پہلی مجلس کاآغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ قاری نے سورئہ حشر کے آخری رکوع کی تلاوت کی اور جب اللہ تعالیٰ کا ارشاد لو انزلنا ہذا القرآن پر پہنچے تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور پوری مجلس پر بہت دیر تک سکتہ طاری رہا۔ تخت نشینی کے بعد ٹیپوسلطان نے اپنی رعایا کے نام (جن کی اکثیرت غیرمسلموں پر مشتمل تھی) جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں اس کے نیک عزائم، اعلیٰ افکار اور رعایاکے ساتھ حسن سلوک اور ہمدردی کے جذبات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے، فرمان کے چند اہم نکات درج ذیل تھے:

(۱)    میں ٹیپوسلطان بحیثیت حکمراں ریاست میسور سلطنتِ خداداد اس بات کو اپنا فرض منصبی سمجھتا ہوں کہ بلا تفریق مذہب وملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح کروں اور ان کی خوشحالی اورمعاشی و سیاسی ترقی کیلئے کوشاں رہوں۔

(۲)   مسلمانوں کی دینی واخلاقی بنیاد پر اصلاح کیلئے خصوصی قدم اٹھاؤں۔

(۳)   انگریزوں کو اس ملک سے باہر کرنے کیلئے جو ہمارے حقیقی دشمن ہیں پورے ہندوستان کے لوگوں کو متحد کروں ۔

(۴)   مظلوم و بے بس عوام کو جاگیرداروں اور زمینداروں کے ظلم و ستم سے نجات دلاؤں اور عدل و انصاف کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کروں وغیرہ وغیرہ۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 91 ‏، جمادی الثانی 1428 ہجری مطابق جولائی2007ء